زندگی خاک نہ تھی, خاک اُڑاتے گزری
تُجھ کو کیا کہتے, تیرے پاس جو آتے گزری
اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمرِ رواں
اُس کو آتا ہے نبھانا, سو نبھاتے گزری
زندگی جِس کے مقدر میں ھوں, بس خوشیاں تیری
زندگی نام اِدھر ہے, کسی سرشاری کا
اور اُدھر, دور سے اِک آس لگاتے گزری
بارھا چونک سی جاتی ہے کسک سی دل میں
رات کیا آئی کہ, تنہائی میں سرگوشی میں
ھُو کا عالم تھا, مگر سُنتے, سُناتے گزری
کِس کی آواز تھی, یہ کِس کو بُلاتے گزری !!
No comments:
Post a Comment